کل چنیوٹ میں انصاف کی کرسی پر براجمان جج علی نواز صاحب نے بھری عدالت میں سرجھکائے ہاتھ بندھے کھڑے ایک محررکو صرف تین منٹ تاخیر سے عدالت میں پہنچنے پر غلیظ گالیاں دیں اور ناقابل برداشت تذلیل کی.پولیس ملازم بھری عدالت میں گالیاں اور تذلیل برداشت نہ کرسکا اور دل کی دھڑکنوں نے اس توہین پر ساتھ دینے سے انکار کردیا.
اظہر عباس کو ہارٹ اٹیک ہوگیا.پہلے لالیاں ٹی ایچ کیو اور پھر فیصل آباد ایف آئی سی منتقل کیا گیا جہاں اسکی حالت ابھی بھی خطرے میں ہے. یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی جج نے پولیس والے کے ساتھ ایسا توہین آمیز رویہ کیا بلکہ یہ روزمرہ کے حالات بنتے جارہے ہیں, جن کا سد باب ضروری ہے. پولیس ملازمان کی ایک طرف انکے افسران تذلیل کرتے ہیں, عوام بھی انکو برا سمجھتی ہے, انکو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور جج صاحبان بھی آئےروز انکے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں. پولیس والے جائیں تو جائیں کہاں؟؟ چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل ہے کہ آئے روز پولیس والوں کی تذلیل کےبڑھتے واقعات کا نوٹس لیں
Courtesy : Voice of Police

